ناول کَماری والا- ایک جائزہ

 کَماری والا، علی اکبر ناطق کا دوسرا ناول ہے۔ اِس سے پہلے اٗن کا ناول نولکھی کوٹھی چند سال قبل شائع ہُوا تھا اور آتے ہی “وہ آیا، اس نے دیکھا اور چھا گیا” کے مصداق ہر خاص و عام پر اپنی دھاک بٹھا چُکا ہےـ اِن ناولوں کے علاوہ علی اکبر ناطق کے افسانوں کے دو مجموعے اور شاعری کی چند کتابیں بھی صفحہِ قّرطاس پر آ کر قارئین میں سندِ مقبولیت پا چکی ہیں۔

اِس تناظر میں دیکھا جائے تو اُن کے نئے آنے والے ناول سے بہت سی توقعات وابستہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات ہرگز نہیں- اب جبکہ یہ ناول شائع ہو چکا ہے تو قارئین کی جانب سے اِس پر مُختلف تَبصرے بھی ہو رہے ہیں اور پسندیدگی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے-

علی اکبر ناطق کا پہلا ناول “نولکھی کوٹھی” پڑھنے کے بعد، مجھے بھی “کماری والا” کا شدت سے انتظار تھا- اِس لیے اس کے شائع ہوتے ہی بُک کارنر جہلم سے بذریعہ کورئیر یہ ناول منگوا کر اس کا مطالعہ شروع کر دیا اور ابھی چند روز قبل ہی اس کو مکمل کیا ہے-

کَماری والا ناول کی کہانی اُس کے ہیرو ضامن علی کے گِرد گُھومتی ہے اور اُسی کی زبانی بیان کی گئی ہے- ناول کا زمانہ لگ بھگ ساٹھ کی دہائی کے وَسط سے لیکر نوے کی دہائی کے وسط تک کا ہےـ ناول کی کہانی ضامن علی کے بچپن سے لیکر لڑکپن اور پھر جوانی تک کا اِرتقائی سفر ہے- اِس سفر کے دوران اُس کا بہت سے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے جن کی اپنی الگ الگ کہانی اور اپنے دُکھ درد ہیں- اِنہی کرداروں کے باہمی میل ملاپ سے ناول کی کہانی آگے بڑھتی ہے-

ناول کی عَمومی فضا اور لہجہ (Tone) سوگوار ہے؛ دُکھ ہیں کہ ہر سُو بِکھرے پڑے ہیں جبکہ خوشیاں تو  بالکل عَنقا ہیں؛ اور آگر ہیں بھی، تو ایسے جیسے ڈھلتی ہوئی شام، جس کے بعد غم کی ایک طویل اور المناک رات بسیرا کئے رہتی ہے- 

ناول کے نسوانی کردار تو خاص طور پر  کبھی نہ ختم ہونے والے مسائل اور دُکھوں کا شکار نظر آتے ہیں- لیکن یہ مظلوم و مجبور خواتین جس ہمت اور استقامت سے ان مسائل و مصائب کا مقابلہ کرتی دکھائی دیتی ہیں، وہ قابلِ تحسین ہے اور ناول پڑھتے ہوئے قارئین کو ان سے محبت ہونے لگتی ہے- اِن میں عدیلہ، زینت، ڈاکٹر فرح، ضامن کی ماں اور شیزا کے کردار انتہائی جاندار ہیں- اُن کے پہلے ناول “نولکھی کوٹھی” کے برعکس جس میں زنانہ کردار محض خاکے  (sketch) ہی نظر آتے ہیں؛ “کماری والا” میں تمام زنانہ کرداروں کو انتہائی مہارت سے تخلیق کیا گیا ہے اور اس ناول میں ناطق کردار نگاری (Characterization) کے عروج پر نظر آتے ہیں-

اس ناول کو ہم جُزوی طور پر آپ بیتی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کے ہیرو ضامن علی کے کردار میں ہمیں جا بجا مصنف کی اپنی جھلک نظر آتی ہے- لیکن مصنف نے معروضیت (objectivity) کو برقرار رکھتے ہوئے ناول کے اندر نہ تو کہیں اپنی ذاتی رائے ٹھونسنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کوئی مُبلّغ اور مَصلح بن کر نیکی و بَدی کا درس دیا ہے- اِس کے برعکس ناول میں پیش آنے والے تمام حالات اور واقعات کو جُوں کا تُوں بیان کرکے کوئی بھی حتمی نتیجہ اخذ کرنے کا کام قاری پر چھوڑ دیا ہے-

یہ ناول حقیقت نگاری کا ایک شاہکار نمونہ ہے اور اس کو پڑھتے ہوئے بالکل ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے تمام کردار ہمارے آس پاس موجود ہیں اور ہم ان کے دکھ درد کے ساتھی ہیں- کسی بھی اعلیٰ ادبی پارے کا اوجِ کمال یہی ہوتا ہے کہ اس پر حقیقت کا گمان ہو، اور یہ خوبی اس ناول میں بدرجہ اتم موجود ہے-

جہاں تک موضوعات ( Themes) کی بات ہے تو ناطق نے اس ناول میں بہت سے متنوع قسم کے موضوعات کا احاطہ کیا ہے جن میں سے کچھ موضوع انتہائی حساس اور چونکا دینے والے ہیں، جن پر قلم اٹھانا انتہائی دل گردے کا کام ہے اور ناطق نے یہ مشکل کام بخوبی سرانجام دیا ہے-
میری ناقص رائے میں “محبت” اس ناول کا مرکزی خیال ہے کیونکہ ناول کا آغاز بھی محبت سے ہوتا ہے اور اختتام بھی محبت پر ہی ہوتا ہے، اور اسی محبت کی تلاش میں ہیرو بچپن سے جوانی تک کا صبر آزما ارتقائی سفر طے کرتا ہے جس کے دوران اس کی اپنی شخصیت اور زندگی بارے اُس کے نطریات پروان چڑھتے ہیں- لیکن یہ محبت روایتی قسم کی ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے کچھ ماورا ہے-

افسانے کے برعکس، ناول چونکہ بہت طویل ہوتا ہے، اس لیے اسکے اندر بہت سے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے-

کَماری والا کے اہم موضوعات میں بدیسی جہاد کے لیے اسکول کے بچوں کی جبری بھرتی، مدارس کو غیر مُلکی فنڈنگ،  بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور انتہا پسندی ، مارکسی نظریات کے پیروکار کامریڈوں کا غیلظ اور بےکار طرزِ زندگی، جاگیر داری اور سیاسی نظام کا پوسٹ مارٹم، غیر پیشہ ورانہ اور ظالمانہ پولیس سسٹم، افسر شاہی کے مکروہ دھندے اور وطن فروشانہ سرگرمیاں، کلرکوں کی کریہہ عادات و نفسیات، کارخانوں میں مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، مزدور یونینوں کی بدمعاشی اور مزدور مخالف رویے،  صحافت کے نام پر صحافتی اقدار کی پامالی، اَپر مِڈل کلاس کے قابلِ اعتراض شب و روز اور مادہ پرستی، شوبز کی آڑ میں جنس کا کاروبار، شہروں کا بےہنگم پھیلاؤ اور درختوں کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں-

علی اکبر ناطق کا اسلوب بےحد دلکش اور زبان و بیان (diction) انتہائی سادہ اور عام فہم ہے، جس سے اُنکی نثر میں پانی کی سی روانی نظر آتی ہے- اور مختلف مناظر کو بیان کرنے کا انداز ایسا دلنشیں ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اُنکی تحریر نہیں پڑھ رہے بلکہ کوئی پینٹنگز دیکھ رہے ہیں- خاص طور پر دیہاتی ماحول اور فطرت کی منظر کشی کرتے ہوئے جس طرح وہ جُزئیات کا خیال رکھتے ہیں، اس پر دل عَش عَش کر اُٹھتا ہے- اِس من موہ لینے والی منظر نگاری کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:

یہ گاؤں کا ایک چھوٹا سا چوک تھا- یہاں ایک سینکڑوں سال پرانا نیم کا درخت پورے چوک میں چھایا ہوا تھا اور سایہ اتنا گہرا تھا کہ دھوپ کی کسی کرن کا احساس تک نہ تھا- نیم پر چڑیوں اور دوسرے پرندوں کی بہتات نے پورے منظر کو بھر دیا تھا- نیم کے درخت کے نیچے دو چارپائیاں پڑی تھیں- اُن پر دو بُڈھے بیٹھے حقہ پی رہے تھے- کچھ عورتیں بیٹھی کروشیے سے کپڑے پر پھول کاڑھ رہی تھیں- ایک عورت دو بکریوں کو باندھ رہی تھی- کچھ بچے بھی اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے اور گلہریوں کی طرح درختوں کی شاخوں پر اُچھل کُود رہے تھے- یہ ایسی دنیا تھی جہاں زندگی موجود تھی مگر اُس کو بیان کرنے کے فلسفے نہیں تھے-

قصہ مُختصر یہ کہ کَماری والا  اپنے مَربُوط پلاٹ، دلچسپ کہانی، حقیقت سے قریب تر کرداروں، مُتنوع موضوعات، سادہ زبان و بیان اور حقیقت نگاری کے باعث ایک شاندار ناول ہے، اور اپنے سے وابستہ توقعات پوری کرتا نظر آتا ہے-
بقول علی اکبر ناطق کے “مجھے اِس ناول کا ایک ایک لفظ دل کے لہو کی روشنائی سے اُٹھانا پڑا-” اور یہ محض دعویٰ نہیں ہے بلکہ ناول کا ہر ہر لفظ اِس دعوے کی تصدیق کرتا ہے-

Related Post: Kamari Wala: Book Review

آخر میں اس ناول سے کچھ اِقتباسات پیشِ خدمت ہیں

لُٹانے کے لیے میرے پاس ویسے تو کوئی شے نہیں تھی مگر لُٹتے وقت انسان کو جس ذلت اور تشدد سے گزرنا پڑتا ہے، وہی بات اذیت ناک تھی-

نیک طینت دل کے مالک کو بدطینتی کے متعلق کسی احساس کا تجربہ نہیں ہو سکتا- وہ اُن کیفیات کو محسوس ہی نہیں کر سکتا جو بدطینت شخص کے وجود سے جنم لیتی ہیں-

تھانے کچہری یا اس طرح کی جگہیں عجیب نحوست زدہ ہوتی ہیں- جہاں سرکاری ملازم اور عوام کا درمیانی فاصلہ کئی سمندروں کی گہرائی اور چوڑائی کا آئینہ ہوتا ہے-

انسان بعض اوقات ایک بےڈھنگی سی انا کی خاطر ایسی بدصورت بےنیازی سے کام لیتا ہے کہ پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ضیاع کا پچھتاوا عمر بھر کی ملامت بن جاتا ہے-

ایسا ہو سکتا ہے ایک بے ایمان آدمی ایماندار ہو جائے لیکن علت میں مبتلا شخص کے لئے ممکن نہیں وہ علت کو چھوڑ دے-

6 thoughts on “ناول کَماری والا- ایک جائزہ

  1. سب سے پہلے تو دیر سے جواب کے لئے معذرت۔ آپ کے کمنٹس اسپام میں ہونے کی وجہ سے دیکھ نہ پایا۔
    جہاں تک کامریڈوں کے بیکار اور غلیظ طرزِ زندگی کا تعلق ہے تو ناول نگار نے اس کی جابجا تصویر کشی کی ہے۔مثلاً کامریڈوں سے اپنی پہلی ملاقات میں ناول کے ہیرو ضامن علی کو یُوں محسوس ہوا جیسے “چرسیوں، غُنڈوں اور مًوالیوں کا ایک ٹولا بیٹھا ہوا ہے۔”
    پھر وہ کہتا ہے کہ “حبیبِ علی مجھے ایک شخص سے متعارف کرانے لگا۔ مًیں اُسے شخص کہنے میں غلطی کر رہا ہوں۔ وہ انسان نما کوئی شے بیٹھی تھی۔ ایک لمبے قد کا ڈھانچہ جِسے مًیلے چکٹ کپڑوں میں لپیٹ دیا گیا ہو۔ آنکھوں میں صدیوں کی بےنُوری اور سر کے بال شاید عید پر دھوتا ہو۔ یہ تو مجھے بعد میں خبر ہُوئی کہ کامریڈ صاحب عید ایسی کسی بھی خرافات سے بہت بلند ہیں۔ کیپ نما ٹوپی جس کے کنارے بوسیدگی اور مًیل کا امتزاج تھے۔”

    اِسی طرح جگہ جگہ مصنف نے ناول کے ہیرو کے ذریعے کامریڈوں کے بیکار طرزِ زندگی، مذہب بیزاری، لایعنی مُباحث
    اور غلیظ رہن سہن کو بے نقاب کیا ہے اور
    اس پر اپنی نفرت کا اظہار بھی کیا ہے ۔

    Like

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s